Type Here to Get Search Results !

میں سکھر سے کشمور جاتے ہوئے ڈھابے پر بیٹھا ہوا تھا



میں سکھر سے کشمور جاتے ہوئے راستے میں سڑک کے کنارے بنے ایک ڈھابے پر بیٹھا تھا میری نظریں سامنے سڑک پر اتی جاتی ٹریفک پر ٹکی ہوئی تھی اور میں اپنی منزل کے متعلق سوچ رہا تھا اسی دوران میں نے دیکھا کہ ایک شخص پیدل چلتا ہوا ڈھابے کی طرف ا رہا ہے وہ حالت سے بھکاری لگ رہا تھا اور میں دل میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہ ڈھابے پر ائے گا تو میں اج کھانا اس کے ساتھ بیٹھ کر کھاؤں گا لیکن ڈھابے کے سامنے پہنچ کر وہ سڑک کے کنارے زمین پر بیٹھ گیا 

میرے علاوہ کوئی بھی شخص اس کی طرف متوجہ نہیں تھا جس سے یہ بات ظاہر ہو رہی تھی کہ وہ شخص معمول کے مطابق یہاں اتا ہے اور ا کر یہیں بیٹھ جاتا ہے شاید وہ اس کا اڈا تھا اور وہ یہیں بیٹھ کر بھیک مانگا کرتا تھا لیکن میں نے چائے والے کو دو چائے کا ارڈر دیا اور اس نے پوچھا صاحب دوسری کس لیے تو میں نے بتایا کہ سامنے بیٹھے شخص کے لیے اس نے میری طرف حیرت سے دیکھا اور مسکرایا شاید اسے یقین نہیں ا رہا تھا کہ میں نے دوسری چائے سامنے بیٹھے ایک مانگنے والے کے لیے کہی ہے وہ کچھ سوال کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے لب وا ہوئے ہی تھے کہ پیچھے سے اسے بلاوا ا گیا اور وہ پھر کام میں متوجہ ہو گیا میں ابھی چائے انے کا منتظر ہی تھا کہ اسے دوران میں نے دیکھا ایک بہت بڑی لینڈ کروزر ا کر اس بزرگ کے پاس رکی ہے اس میں سے ایک انتہائی رعب دار شخصیت کی مالک پختہ عمر کی خاتون نیچے اتری ہے اس نے اتر کر بھکاری کے ہاتھ میں ہزار ہزار روپے والے چند نوٹ تھمائے ہیں اور پھر واپس مڑ کر گاڑی میں بیٹھ گئی ہے شاید اس نے بھکاری کی دعاؤں کا بھی انتظار نہیں کیا تھا اور اس کی گاڑی سڑک پر پھر شراٹے بھرنے لگی تھی  جب وہ گاڑی والی خاتون اتر کر اس بھکاری کو بھیک دے رہی تھی تو ڈھابے پر بیٹھے ایک شخص نے بہت بلند اواز میں اللہ اکبر کہا تھا جسے سن کر سب لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے میری بھی سماعتیں اس کی طرف متوجہ ہوئی تھی لیکن میں نے نظر سامنے کھڑی گاڑی سے اترنے والی خاتون اور اس بھکاری پر ٹکا رکھی تھی اور ان کی حرکات و سکنات دیکھ رہا تھا

میں اس بھکاری کو دیکھنے میں منہمک تھا کی اتنی دیر میں ڈھابے کے ویٹر نے ا کر مجھے صاحب چائے کہا تھا میں نے اس کے ہاتھ سے دونوں چائے کے پیالے پکڑے اور اس بھکاری کی طرف چل دیا میں جا کر اس کے برابر میں بیٹھ گیا اور چائے کا پیالہ اس کی طرف بڑھا دیا مگر بھکاری نے چائے کا پیالہ پکڑنے کے لیے میری طرف ہاتھ نہ  بڑھایا بلکہ اس نے میری طرف یوں انکھیں پھاڑ کر دیکھا جیسے میں نے اس کو کہیں بہت بڑی اذیت دے دی ہو یا میری یہ بات اس کو انتہائی ناگوار گزری ہو خیر میں نے پیالے کو اگے بڑھائے رکھا اور اس انتظار میں رہا کہ وہ ہاتھ بڑھا کر چائے کو پکڑ لے لیکن اس نے نہ پکڑا اتنی دیر تک پیچھے سے ویٹر کی پھر اواز ائی اور اس نے بتایا کہ صاحب یہ چائے لے کر نہیں پیے گا تو میں پھر واپس مڑ ایا 

میرے دونوں ہاتھوں میں چائے پہلے تھی اور میں ا کر ان بابا جی کے سامنے بیٹھ گیا تھا جنہوں نے باواز بلند اللہ اکبر کہا تھا میں نے ایک پیالہ ان کی طرف بڑھایا تو انہوں نے بسم اللہ کر کے وہ پکڑ لیا اور  مجھے کہا کہ بے شک اللہ وہاں سے رزق کے دروازے کھول دیتا ہے جہاں سے ہماری سوچ بھی نہیں ہوتی میں نے ان سے پوچھا کہ کیا مطلب میں اپ کی بات نہیں سمجھا کیسا رزق کا دروازہ ؟
تو انہوں نے بتایا کہ میں صبح کا یہاں ا کر بیٹھا ہوا ہوں اور اکثر بیٹھا رہتا ہوں یہاں کر بیٹھنے کا مقصد محض ایک چائے کی پیالی ہوتا ہے جو روز اللہ تعالی مجھے کسی نہ کسی کے وسیلے سے دے دیتا ہے کیونکہ میرے پاس چائے کی ایک پیالی تک خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے اج دیکھ لو اپ کہاں سے چلے اور کہاں ا کر مجھے چائے پلائی میں ان کی بات سے بہت متاثر ہوا اور پھر ان سے پوچھا کہ جب وہ گاڑی سے اتر کر خاتون اس بھکاری کو پیسے دے رہی تھی تو اپ نے باواز بلند اللہ اکبر کیوں کہا تھا میری بات سن کر بابا جی مسکرائے اور پھر میری انکھوں میں انکھیں ڈال کر کہا کہ میں بتاؤں گا تو تم یقین نہیں کر پاؤ گے میں نے کہا اپ بتائیں میں یقین کروں گا کیوں نہیں کروں گا تو انہوں نے بتایا کہ بھیک مانگنے والا شخص باپ تھا اور جس خاتون نے خیرات کی اور بھیک دی وہ اس کی سگی بیٹی تھی اور بات سن کر میں واقع ہی بابا جی کی بات پر یقین نہیں کر سکا تھا

میں نے بابا جی سے وضاحت کرنے کے لیے کہا تو انہوں نے بتایا کہ یہ بھکاری شخص کسی دور میں بہت بڑا رئیس تھا یہ گھوٹکی کا رہنے والا تھا اور اس کا کباڑ کا کاروبار تھا اس شخص کے گھر میں پہلی اولاد بیٹی پیدا ہوئی تھی تو اس نے اپنی بیوی کو وارننگ دی تھی کہ اگر ائندہ بیٹی پیدا ہوئی تو تمہیں بیٹی کے ساتھ قبر میں جانا ہوگا اس کی بیوی نے اس التجا کی تھی کہ مجھے قبر میں نہ بھیجنا نہ اپنی اولاد کو قتل کرنا اگر تم چاہو تو مجھے طلاق دے دینا میں اپنی بیٹیوں کو پال لوں گی مگر تب اس کے پاس دولت ہی سب کچھ تھا اس لیے یہ خود کو فرعون سمجھ رہا تھا اللہ تعالی کو بھی اس کا امتحان مقصود تھا اس لیے اگلی بار اللہ تعالی نے اس کو جڑواں بیٹیاں عطا کر دیں بیٹیوں کی پیدائش کے ٹھیک ایک ہفتے بعد اس نے اپنی بیوی اور تینوں بیٹیوں کو زہر دے دیا اس بھکاری نے رات کو بارہ بجے کے بعد اپنی بیوی اور بچیوں کو زہر دیا 
اور ٹھیک سوا ایک بجے اس کی بیوی کے میکے والے اس کے دروازے پر پہنچ گئے تھے کیونکہ اس کی بیوی کی چھوٹی بہن گھر والوں سے ضد کر رہی تھی کہ ہماری بہن کو زہر دے کر مار دیا گیا ہے اور وہ کہتی تھی کہ مجھے یہ بات میرے مرشد بتا کر گئے ہیں جب اس کی بیوی کے میکے والے پہنچے تو واقع ہی ان کی بیٹی کو زہر دے دیا گیا تھا جس کی وجہ سے ان کی اپنی بیٹی اور ان کی دو نوزائدہ نواسیوں کی موت ہو چکی تھی ایک بڑی نواسی کی سانسیں چل رہی تھی مگر وہ مسلسل تڑپ رہی تھی اور اس کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا اسے اٹھا کر فورا ہسپتال پہنچایا گیا باقی دونوں کو بھی ہسپتال لے جایا گیا لیکن ان کی موت کی وہیں تصدیق کر دی گئی اور ان کی بڑی نواسی جو پہلی اولاد تھی اسے داخل کر لیا گیا 

اس کی بیوی کی میکے والوں نے قانونی کاروائی کرنا چاہی مگر یہ شخص پیسے والا تھا اس نے پولیس اور عدالتوں کے ساتھ میل ملاپ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ دودھ کے اندر زہر نہیں ملایا گیا تھا بلکہ دودھ کے اندر کوئی زہریلا کیڑا گر گیا تھا جو بچوں نے اور اس کی بیوی نے پی لیا جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہو گئی اس طرح یہ قانون کی گرفت سے بچ گیا لیکن اللہ تعالی کی گرفت میں اگیا اس شخص نے دوسری شادی کی اور جس خاتون سے دوسری شادی کی وہ انتہائی شاطر تھی اس نے اس کا سب کچھ ہتھیا لیا اور اسے گھر سے نکال باہر کر دیا یہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے لگا اور دماغی توازن بھی کھو بیٹھا جبکہ اس کی ایک بیٹی جو بچ گئی تھی اس کی پرورش اس کی خالہ نے سنبھالی کیونکہ نانی نانا تو اپنی بیٹی اور دو نواسیوں کی موت کے بعد تقریبا مر ہی گئے تھے وہ اب اپنی اس نواسی کی پرورش کرنے کے قابل نہیں تھے 

خالہ نے اپنی بھانجی کی پرورش کے لیے بہت ساری قربانیاں دی یہاں تک کہ وہ شادی بھی نہ کر سکی کوئی بھی شخص اس کو ایک چند سالہ بچی اور دو بوڑھے والدین کی ذمہ داری کے ساتھ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا اور وہ ان رشتوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھی مجبورا اسے تنہا ہی اپنی جوانی گزارنا پڑی اس کے والدین کی موت کے بعد وہ اپنی بھانجی کو لے کر کراچی منتقل ہو گئی رزق کمانے کے چکروں میں میں بھی کراچی چلا گیا کیونکہ میرا تعلق بھی اس بھکاری کے بیوی کے میکے والے گاؤں سے تھا اور میں ان کو اچھی طرح جانتا تھا اس لیے وہاں کراچی میں بھی میری اور ان کی ملاقات ہو گئی 

خالہ نے اپنی بھانجی کی بہترین پرورش کی اور تعلیم و تربیت کی یہاں تک وہ بھانجی پڑھ لکھ کر دفتر خارجہ میں اعلیٰ عہدے پر فائز ھو گئی اس کی شادی بھی ایک بڑے بیورو کریٹ سے ھوئی اور وہ بھانجی کوئی اور نہیں بلکہ یہ خاتون تھی جو اس شخص کی سگی اولاد ھے مگر نہ تو یہ بات اس خاتون کو پتہ ھے اور نہ ہی اس بھکاری شخص کو ۔۔۔۔۔ 
میں نے بابا جی سے پوچھا کہ أپ کیوں نہیں بتا دیتے اس خاتون کو کہ یہ اس شخص کی بیٹی ھے تو بابا جی میرے بات سن کر مسکرائے اور کہا کہ میں نے اس لڑکی کو گیارہ سال بعد دیکھا ھے اور شاید اب حشر میں دیکھون گا میں بتا بھی دوں تو فرق نہیں پڑھے گا کیونکہ بھکاری بیٹی کو زحمت سمجھتا تھا اس کے لئیے پھر وہ رحمت کیسے بن سکتی ھے ؟
بابا جی کا جواب سن کر میں خاموش ہو گیا اور اپنے رستے پر چل دیا

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad